

علم نام ہے جاننے کا، کہ کوئی چیز کب، کیسے اور کیوں بنی۔ اسے کب، کیسے اور کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے استعمال سے کیا فائدے اور نقصانات ہو سکتے ہیں ۔ یہ سب معلومات ہیں اور ان معلومات کو دوسروں تک منتقل کرنے کو تعلیم کہتے ہیں ۔ یہ معلومات کائنات اور اس کے اندر موجود تمام جاندار اور بے جان اشیاء سے متعلق ہیں ۔ جب معلومات کا دائرہ اتنا وسیع ہو تو مجبوراً درجہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر علم کے مختلف شعبہ جات ( فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی وغیرہ ) معرضِ وجود میں آتے ہیں ۔ پھر انتقال ِ علم کے لیے عمر ، جنس، مقام اور ماحول کو بھی مدِّ نظر رکھنا پڑتا ہے لہٰذا یہ سارا عمل نہایت سنجیدگی ، باریک بینی اور دور اندیشی کا متقاضی ہوتا ہے۔
کائنات اور اس کی نعمتوں سے اسی وقت لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے جب ہم کائنات اور اس کے اندر موجود اشیاء کی ماہیت سے بخوبی واقف ہوں اور ان کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کا گُر بھی جانتے ہوں ۔ انہی معلومات کو نور کہاگیا ہے اور ان کی عدم موجودگی کو تاریکی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شہرِ علم ﷺ نے انہی معلومات کو اپنا اسلحہ قرار دیا ہے ( العلم سلاحی ) یعنی علم ہی وہ اسلحہ ہے جس کے زور پر کائنات فتح کی جا سکتی ہے۔ کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش میں انسان جو اصول و ضوابط دریافت کر رہا ہے اور نتیجتاً آئے دن جو ایجادات سامنے آ رہی ہیں وہ جتنی نفع بخش ہیں اتنی ہی تباہ کن بھی ۔ لہٰذا یہ امر نہایت ضروری ہے کہ علم رکھنے والا ایسا ہو جو علم کی تباہ کن دریافتوں کو کسی صورت استعمال نہ کرے۔ یوں صاحبِ علم کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ صاحب ِ کردار بھی ہو اور صاحبِ کردار بننے کے لیے تربیت ضروری ہے، اس لیے تعلیم اور تربیت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
تعلیم کے حوالے سے گھر ، مکتب اور معاشرہ تینوں نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ گھر جسمانی ، مکتب ذہنی اور معاشرہ اخلاقی پرورش کا ذمہ دار ہے۔ تینوں عناصر کی مشترکہ کوشش سے ایک صاحبِ علم تیار ہوتا ہے۔ یہ صاحبِ علم صحیح و صالح رہے تو معاشرہ صحیح و صالح رہتا ہے اور یہ بگڑ جائے تو معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ صاحبِ علم کا صالح ہونے کا دارومدار اس کے قلب و ذہن پر ہے۔ اسی لیے اپنی سوچوں کو زمزم کے قطروں کی طرح شفاف اور پاکیزہ رکھنے کا حکم ہے نیز اعما ل کی جزا کا پیمانہ نیت کو قرار دیا گیا ہے۔ گویا تعلیم کسی بھی معاشرے کی چابی ہے۔ اگر یہ درست سمت میں گھومے گی تو معاشرہ درست ہو جائے گا اور اگر غلط سمت میں گھومے گی تو معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
اگر معلم کا قلب عشقِ مصطفیٰﷺ سے منور ہو گا تو زیرِ تعلیم طلباءاسی رنگ میں رنگتے جائیں گے اور ایسا صالح معاشرہ قائم ہو گا جو حقیقی معنوں میں مصطفائی معاشرہ ہو گا۔